بشار الاسد کی حکومت کیوں گرائی گئی؟

تاریخی پس منظر

بشار الاسد کی حکومت کی تشکیل اور اس کے بعد کی صورت حال کو سمجھنے کے لیے شام کی سیاسی تاریخ کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہے۔ شام کی تاریخ میں مختلف حکومتی تبدیلیاں اور سیاسی واقعات واقع ہوئے ہیں، جن میں سے ایک اہم واقعہ حافظ الاسد کی حکمرانی تھی۔ حافظ الاسد نے 1970 میں اقتدار سنبھالا اور اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے۔ ان کی حکمت عملیوں نے شام کے سیاسی منظر نامے میں ایک خاص تبدیلی پیدا کی، جس کے نتیجے میں یہ ملک ایک مضبوط اور مرکزی حکومت کے دائرے میں آیا۔

حافظ الاسد کی حکومت نے ملک میں متعدد سیاسی اور سماجی مسائل کا سامنا کیا، خاص طور پر معیشت، انسانی حقوق، اور سیاسی آزادیوں کے حوالے سے۔ ان کی حکومت نے کئی بار عوامی مظاہروں کا سامنا کیا تھا، جس نے دیگر سیاسی طاقتوں کے ابھار کا موقع فراہم کیا۔ یہ صورت حال بشار الاسد کے اقتدار میں آنے کے پس پردہ ایک اہم وجوہات میں سے ایک ہے، جب انہوں نے 2000 میں اپنے والد کی وفات کے بعد حکومت سنبھالی۔

بشار الاسد نے ابتدائی طور پر اصلاحات کا وعدہ کیا، مگر جلد ہی ان کی حکومت نے بھی وہی سخت رویہ اختیار کر لیا جو ان کے والد کی حکومت کا خاصہ تھا۔ سیاسی مخالفین کو دبانا، صحافتی آزادی کی قید اور انسانی حقوق کی پامالی نے عوام میں عدم اعتماد کی لہر پیدا کی۔ شام میں بڑھتی ہوئی عدم استحکام کی صورت حال نے عوامی تحریکوں کے آغاز کا باعث بنی، جو آگے چل کر حکومت کے خاتمے کا موجب بنیں گی۔ یہ تاریخ کے پہلو حکومت کے عروج و زوال کا ایک نشاندہی کرتی ہے۔

شہری جنگ کا آغاز

بشار الاسد کی حکومت کے خلاف شہری جنگ کا آغاز 2011 میں ہوا، جو شام کے تاریخی پس منظر میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس کی ابتدائی وجہ نوجوانوں کے مظاہروں کا ایک سلسلہ تھا، جو ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، معاشرتی عدم مساوات، اور حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف ابھرا۔ مظاہرین نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مطالبات کو عالمی سطح پر پہنچایا اور ان کی آواز کو بلند کیا، جس نے بہت سے دوسرے لوگوں کے دلوں میں ان کے حق کے حصول کے لیے آواز اٹھانے کی تحریک پیدا کی۔ شامی حکومت نے ان مظاہروں کا جواب سختی سے دیا، جس میں طاقت کا بے دریغ استعمال شامل تھا۔ حکومتی فورسز نے طاقت کے استعمال کے ذریعے مظاہروں کو کچلنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں مظاہرین میں تشدد کی لہر پیدا ہوئی۔ یہ مظاہرے بتدریج زیادہ منظم اور وسیع ہوتے چلے گئے، جس کا نتیجہ شہری جنگ کی صورت میں نکلا۔

مظاہرین کے مطالبات میں بنیادی انسانی حقوق، جمہوری اصلاحات، اور بشار الاسد کی حکومت کے خلاف کھڑا ہونا شامل تھے۔ جب حکومت نے ان مظاہروں کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا تو یہ نوجوانوں کے خلاف ایک مہم کی صورت اختیار کر گیا۔ اس کے جواب میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی جانیں قربان کرنے کا فیصلہ کیا اور مسلح تحریک کا آغاز ہوا، جس نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔

مظاہرین کی جانب سے مسلح جواب نے شام کو ایک ایسی جنگ کی طرف دھکیل دیا، جس میں مختلف گروپوں کا ایک ڈھونڈنا، بین الاقوامی قوتوں کی مداخلت، اور شامی عوام کی بنیادی ضروریات کے لیے جدوجہد شامل تھی۔ اس جنگ نے شامی عوام کے زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا اور یہ سوال پیدا کیا کہ بشار الاسد کی حکومت کو قابو کرنے کی کوششیں کہاں تک پہنچیں گی۔

بین الاقوامی مداخلت

شام کی جنگ کے دوران بین الاقوامی مداخلت نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس پیچیدہ بحران میں مختلف ممالک نے اپنے مفادات کی بنا پر شامی تنازعہ میں مداخلت کی، جس میں روس، امریکہ، ایران، اور دیگر خطے کے ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک کی مداخلت نے بشار الاسد کی حکومت کو بچانے یا گرانے کے لیے مختلف حکمت عملیوں کو جنم دیا۔

روس کی شمولیت نے بشار الاسد کی حکومت کو مضبوطی فراہم کی، جو اس کے حامیوں میں شامل تھا۔ ماسکو نے شامی فوج کو فضائی حمایت فراہم کی، جس نے اسد کے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے اہم کردار ادا کیا۔ ایران بھی ایک اہم اتحادی رہا، جس نے بشار الاسد کی حکومت کو مالی اور فوجی مدد فراہم کی۔ ایران کی حمایت نے اسد کی حکومت کو مضبوط کیا، خاص طور پر جب اس کے مخالفین نے ملک کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا۔

دوسری جانب، امریکہ اور مغربی ممالک نے باغیوں کی حمایت کرنے کی کوشش کی، جن کا مقصد اسد کی حکومت کو گرانا تھا۔ امریکہ نے مختلف گروہوں کو مدد فراہم کی اور اسد کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ تاہم، اس کے نتیجے میں شام میں مزید بھاری لڑائیاں ہوئیں، جو اس ملک کی صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتی گئیں۔ دیگر عرب ممالک بھی اس معاملے میں متحرک رہے، جہاں کچھ نے اسد کی حکومت کی مخالفت کی، جبکہ دیگر نے اس کی حمایت کی۔

ان تمام بین الاقوامی عوامل نے بشار الاسد کی حکومت کی حالت کو متاثر کیا، اور یہ بھی واضح کیا کہ کس طرح ایک داخلی تنازعہ بین الاقوامی سیاست کے چالوں سے جڑا ہوا ہے۔ بین الاقوامی مداخلت نے شامی جنگ کی توجہ کو نئی جہتیں دیں، جو کہ شام کے مستقبل کی صورتحال پر اثرانداز ہوئیں۔

مظاہرین اور مخالفین کی تحریک

شام کے مختلف شہروں میں 2011 کے دوران شروع ہونے والے مظاہرے دراصل شام کے عوام کی بے چینی اور بشار الاسد کی حکومت کے خلاف بڑھتے ہوئے جذبات کا نتیجہ تھے۔ یہ مظاہرے بنیادی انسانی حقوق، جمہوری اصلاحات اور سیاسی آزادی کی طلب پر مبنی تھے۔ مظاہرین کی کوششیں نہ صرف ایک متبادل حکومت کی تشکیل کی کوشش تھیں بلکہ انہوں نے حکومت کے مظالم اور بدعنوانیوں کے بارے میں آواز بلند کرنے کی بھی بہت اہم ترین کوشش کی۔

مظاہروں کے دوران، عوامی بغاوت نے مختلف سیاسی گروہوں کو اکٹھا کرنے کا کام کیا۔ یہ گروہ، جیسے کہ قومی تحریک، شامی آزادی کے مشن پر قائم تھے، انہوں نے اپنے اندر اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ اتحاد مختلف نظریاتی اختلافات اور مقامی مفادات کی وجہ سے اکثر ٹوٹتا رہا۔ اس کے علاوہ، مظاہرین میں مختلف نسلی اور فرقہ وارانہ گروہوں کی شمولیت نے بھی سیاسی منظرنامے کو پیچیدہ بنا دیا۔

بشار الاسد کی حکومت کے خلاف یہ تحریک ایک گہرا داخلی خلفشار پیدا کرنے کا باعث بنی، جس میں مختلف طاقتور گروہوں کے درمیان رقابت نے تحریک کی قوت کو کمزور کردیا۔ خصوصاً نچلے طبقے کے عوام، جو بدعنوانی اور معاشی مشکلات کا شکار تھے، انہوں نے بڑی تعداد میں حکومتی قوت کا سامنا کیا۔ یہ داخلی خلفشار اور اتحاد کی عدم تشکیل نے تحریک کو ایک منظم قومی تحریک میں تبدیل ہونے سے روکا، جو بدقسمتی سے، مزید دھوکہ دہی اور انتہائی تنظیموں کی شمولیت کا باعث بنی۔

اس تحریک کی تاریخ میں ایک اہم مرحلہ اس وقت آیا جب حکومت نے تشدد کا راستہ اپنایا۔ اس قدم نے نہ صرف مظاہرین کی حوصلہ شکنی کی بلکہ انہیں مزاحمت پر بھی مجبور کیا۔ یہ صورتحال بشار الاسد کی حکومت کو مزید مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوئی اور شامی عوام کے درمیان مایوسی کی ایک نئی لہر پھیل گئی۔

حکومت کی پالیسیوں کی ناکامی

بشار الاسد کی حکومت کے دور میں متعدد پالیسیوں کی ناکامیاں دیکھنے میں آئیں، جنہوں نے نہ صرف ملکی معیشت کو متاثر کیا بلکہ سماجی دھارے اور انسانی حقوق کی صورت حال کو بھی خراب کیا۔ اقتصادی پالیسیاں زیادہ تر غلط منصوبہ بندی اور بدعنوانی کی شکار رہیں، جس کی وجہ سے ملک کی معیشت میں تنزلی ہوئی۔ بے حسی کے ساتھ ساتھ، حکومت نے بنیادی ڈھانچے کی بحالی اور ترقی کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھائے، جس کی وجہ سے عوام کو بنیادی سہولیات میسر نہیں آسکیں۔ ایسے حالات نے عوام میں مایوسی پیدا کی، جو بالآخر ان کے ایجیٹیشن کا سبب بنے۔

سماجی پالیسیاں بھی ناکام رہیں، کیونکہ حکومت کی توجہ صرف طاقتور طبقات کی حمایت پر مرکوز تھی۔ عوامی بہبود کے منصوبے، جن کا مقصد متوسط درجے کے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا تھا، ناقص نظم و ضبط اور وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے ناکام ہو گئے۔ یہ حکومت کی ناکامی تھی کہ ان کی پالیسیوں نے عوامی زندگی کے معیار کو بلند کرنے کے بجائے مزید انتشار پیدا کیا۔ عوام کی بنیادی ضروریات کی عدم تکمیل نے حکومت کے خلاف شدید ردعمل کو جنم دیا۔

انسانی حقوق کی صورت حال بھی اس دور میں بہت خراب ہو گئی۔ بشار الاسد کی حکومت نے معارضین کی آواز کو دبانے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عام رہیں اور اس کے نتیجے میں نہ صرف عالمی سطح پر حکومت کی ساکھ متاثر ہوئی بلکہ اندرون ملک بھی عوامی ناراضگی بڑھ گئی۔ جب حکومت ایسے اقدامات کرنے میں ناکام رہی جو عوامی اعتماد بحال کرنے میں معاون ثابت ہوتے، تو اس کے نتیجے میں بشار الاسد کی حکومت کی موثریت پر سوالات کھڑے ہوگئے۔ ایسے ناکامیوں نے اس کی حکومت کے خاتمے کی بنیاد فراہم کی۔

علاقائی اثرات

شام کی حکومت کے خاتمے نے خطے میں متعدد اہم اثرات مرتب کیے ہیں جو مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی اور سیاسی حالت کو متاثر کرتے ہیں۔ بشار الاسد کی حکومت کی تبدیلی نے لبنان میں داخلی سیاسی عدم استحکام کو بڑھایا۔ لبنان کے شیعہ سیاسی گروپ حزب اللہ نے بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کی۔ جب شام میں تبدیلی کے آثار نظر آئے، تو اس نے لبنان میں شیعہ اور سنی گروپوں کے درمیان کشیدگی کو بڑھا دیا، جس کے نتیجے میں یہاں ایک نئی سیاسی تقسیم نے جنم لیا۔

عراق میں بھی شام کی صورت حال نے خاصا بڑا اثر ڈالا۔ بشار الاسد کے حکومتی نظام کے خاتمے نے عراقی حکومت کی استحکام کو متاثر کیا، خاص طور پر اس وقت جب داعش جیسی تنظیموں کو بڑھنے کا موقع ملا۔ شام میں جنگ اور سیاسی عدم استحکام نے عراقی بارڈر پر سیکیورٹی چیلنجز پیدا کیے، جس کے نتیجے میں عراقی حکومت کو اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ عوامل علاقے میں مزید بے چینی اور انتہا پسند عناصر کے ابھرنے کو جنم دیتے ہیں۔

ترکی بھی اس تبدیلی سے متاثر ہوا۔ شام میں جاری خانہ جنگی نے ترکی کی سرحدوں پر مہاجرین کا ایک بڑا سیلاب پیدا کیا، جس کی وجہ سے ترکی کی معیشت اور سماجی ڈھانچے پر دباؤ بڑھ گیا۔ ترکی نے یہ بھی محسوس کیا کہ شام میں استحکام کی عدم موجودگی اس کی اپنی قومی سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے نے ترکی کی سیاسی حکمت عملی کو بھی متاثر کیا، جہاں اس نے شام کے اندر اپنے مؤثرات کو بڑھانے کے لیے متعدد فوجی کارروائیاں کیں۔

اس طرح، بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ایک نہ ختم ہونے والے بدلیاتی سلسلے کا آغاز ہوا، جس نے نہ صرف شام بلکہ پورے خطے کے لیے دور رس اثرات مرتب کیے۔

اجتماعی انسانی بحران

شام کی جنگ نے ایک انتہائی بدترین اجتماعی انسانی بحران کو جنم دیا ہے، جس کے اثرات نہ صرف شام بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں۔ بشار الاسد کی حکومت کے دوران، اس جنگ نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ اس میں سب سے بڑی تشویش کا باعث شامی پناہ گزینوں کی صورت حال ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق، شام کی جنگ کے آغاز سے قریباً ۶.۷ ملین افراد اپنے وطن سے بے گھر ہو چکے ہیں، جبکہ ۵.۶ ملین شامی دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال نے بین الاقوامی سطح پر انسانی امداد کی ضرورت کو بھی بڑھا دیا ہے۔

بشار الاسد کی حکومت کی سخت پالیسیوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جنم دیا ہے، جو اس بحران کا ایک اہم پہلو ہے۔ جنگی حالات کے باوجود، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جس میں تشدد، قید و بند، اور دیگر اقوام کے افراد کے لئے خطرات شامل ہیں۔ شامی عوام کی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہو پا رہی ہیں، جس سے بھوک، بیماری، اور غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ انسانی امداد کی ضرورت روز افزوں بڑھ رہی ہے، مگر یہ امداد اکثر اوقات پہنچنے میں رکاوٹوں کا شکار ہوتی ہے، خاص طور پر جنگ زدہ علاقوں میں جہاں بشار الاسد کی حکومت کنٹرول رکھتی ہے۔

شام میں یہ انسانی بحران اسے ایک ایسی صورتحال میں لے آیا ہے جس میں نہ صرف قیام امن کے لئے بلکہ انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کے لئے بھی فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ عالمی برادری کو اس مسئلے کی طرف متوجہ ہونے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ شامی عوام کو درپیش اس غیر معمولی انسانی بحران کا موثر حل نکالا جا سکے۔

حکومت کی بچاؤ کی کوششیں

بشار الاسد کی حکومت کی بقا کے لئے کئی اہم اقدامات کیے گئے۔ ان کوششوں میں فوجی طاقت کا استعمال، مذاکراتی عمل، اور مختلف قلیل المدتی و طویل المدتی حکمت عملیاں شامل تھیں۔ اسد حکومت نے ابتدا میں اپنی فوجی قوت کو موثر طور پر متحرک کیا تاکہ باغی گروہوں کے خلاف مزاحمت کی جا سکے۔ اس بات کا احساس رکھتے ہوئے کہ داخلی طور پر کنٹرول کھو رہا ہے، بشار الاسد نے اپنے سیکیورٹی اداروں کو مستحکم کیا اور ان کی مدد سے شام کے مختلف حصوں میں باغیوں کا مقابلہ کیا۔

اسد نے بین الاقوامی سطح پر بھی مدد طلب کی، خاص طور پر ایران اور روس جیسے اتحادیوں کی جانب سے۔ ان ممالک نے اسد حکومت کی حمایت کی اور نہ صرف فوجی امداد فراہم کی بلکہ سیاسی حوالے سے بھی استحکام کی کوششیں کیں۔ اس کے علاوہ، بشار الاسد نے کچھ اصلاحات کا بھی اعلان کیا، جن میں اقتصادی اصلاحات اور سیاسی مذاکرات شامل تھے، تاکہ اپنی حکومت کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی غم و غصے کو کم کیا جا سکے۔ ان اقدامات کے ذریعے حکومت نے اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کی۔

مذاکراتی عمل بھی اسد حکومت کی بچاؤ کی کوششوں میں اہم رہا۔ مگر یہ مذاکرات اکثر متنازعہ رہے اور ان سے واضح نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ حکومت کی جانب سے اس عمل کا حصہ بننے کے بعد بھی داخلی اختلافات کے سبب بات چیت عموماً ناکام رہی۔ اس کے باوجود، بشار الاسد نے بین الاقوامی سطح پر اپنی حکومت کو جائز دکھانے کی کوشش کی۔ نتیجتاً، شام کی داخلی مشکلات اور عالمی دباؤ کے باوجود، حکومت بچاؤ کے متعدد حربے استعمال کرتے ہوئے اپنی بقا کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی رہی۔

آنے والے وقت کا منظرنامہ

آنے والے وقت میں اگر بشار الاسد کی حکومت ختم ہوگی تو شام کا سیاسی منظرنامہ بنیادی طور پر تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں مختلف سیاسی جماعتیں سر اٹھا سکتی ہیں، جو موجودہ نظام کی مخالفت کرتی ہیں۔ ان جماعتوں میں کچھ ایسی ہیں جو جمہوریت، انسانی حقوق، اور قومی اتحاد کے دعوے کرتی ہیں۔ اگر ان سیاسی جماعتوں کو منظم کیا جائے تو وہ ایک متبادل حکومت کے قیام کی کوشش کر سکتی ہیں، جو ملک کے ماضی اور موجودہ مسائل کے حل کے حوالے سے مختلف حکمت عملیوں پر زور دے سکتی ہے۔

آنے والے وقت کا ایک اور اہم پہلو امن کے امکانات ہیں۔ اگر بشار الاسد کی حکومت کو ختم کیا جاتا ہے تو ملک میں ایک عبوری حکومت کے قیام کی ضرورت ہوگی، جو مختلف فریقین کے درمیان مذاکرات کی بنیاد فراہم کرے گی۔ اس عبوری حکومت کے تحت، امن قائم کرنے کی کوششیں جاری رکھی جا سکتی ہیں، جن میں شامی مسلح گروہوں اور حکومتی افواج کے درمیان جنگ بندی کی کوششیں شامل ہو سکتی ہیں۔ تاہم، یہ تمام ممکنات سیاسی عدم استحکام اور داخلی اختلافات کی صورت میں چیلنجز کا سامنا کر سکتے ہیں۔

بین الاقوامی برادری اس صورتحال میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر بشار الاسد کی حکومت ختم ہوتی ہے تو مختلف ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں، جیسے کہ اقوام متحدہ، کو شام کے نئے سیاسی ڈھانچے کے قیام میں شامل ہونے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ وہ بین الاقوامی تعاون کے ذریعے سیاسی اصلاحات، انسانی حقوق کی بحالی اور انسانیت سے متعلقہ مسائل کے حل کے لیے کوششیں کریں گے۔ اس کے نتیجے میں شام کی ممکنہ سیاسی تبدیلیاں ایک مثبت سمت میں پیش رفت کر سکتی ہیں، بشرطیکہ مختلف فریقین کی حمایت حاصل ہو۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top